بھارت ٹوٹ جائے گا/کاشف لطیف
زمرہ: Current Affairs | 2025-05-19 | 👀 24 views

پیج ٹو
تھی مگر اب 10 مئی 2025 کے بعد اس میں باقاعدہ طور پر شدت آ گئی ہے آج کل ایک پنجابی سونگ "ہو بابے جنم لے آئے بابے نانک جنم لیا کرو سجدہ ستھان نو اسی مردہ باد نہیں کہہ سکتے پل کے بھی پاکستان نوں " پاکستان اور بھارت میں بہت ذیادہ مقبول ہے جس کے بعد مغربی ممالک میں مقیم سکھ ڈائسپورا اور حالیہ کسان تحریکوں نے اور پاک بھارت جنگ 2025 نے اسے نئی جان بخشی ہے۔ بیچ اس کے ہماچل اور اتراکھنڈ میں بھی مقامی لوگ انڈیا سے علیحدہ ریاستیں چاہتے ہیں مرکزِ ہند میں جھارکھنڈ ، چھتیس گڑھ ، اڈیشہ اور مدھیہ پردیش کی معدنی پٹی جسے ’’ریڈ کوریڈور‘‘ کہا جاتا ہے آدی واسی قبائل کی محرومیوں اور ماؤ نواز مسلح جدوجہد کی علامت ہے یہاں ریاستی تحویل میں آنے والی کانوں نے مقامی آبادی کو بے دخل کیا اور بدلے میں ترقی کے وعدے بدعنوان مقامی اشرافیہ کی جیبوں میں سمٹ گئے۔ نتیجہ یہ کہ نکسلی گوریلوں اور نیم فوجی دستوں کے درمیان برسوں سے ایک ایسی آنچ سلگ رہی ہے جس میں سڑکیں، ریل کی پٹریاں اور انسانی زندگیاں پگھلتی رہتی ہیں اس تحریک میں بھی حالیہ 2025 کی پاک بھارت جنگ میں بھارت کی پاکستان کے ہاتھوں عبرتناک شکست نے شدت اختیار کر لی ہے ۔ اسی خطے میں بہار اور اتر پردیش کی گنگا ، جمنا تہذیب ، غربت اور ذات پات کے گٹھ جوڑ میں پھنسی ہوئی ہے جہاں کبھی ’’پوروانچل‘‘ اور کبھی ’’بندیل کھنڈ‘‘ کے نام سے چھوٹی ریاستوں کے مطالبے سر اٹھاتے رہتے ہیں۔ بھارت کا شمال مشرق جسے بعض مقامی باشندے طنزیہ انداز میں ’’بالانگما‘‘ یعنی دور افتادہ گھر کہتے ہیں نسلی ، مذہبی اور لسانی رنگا رنگی سے بھرپور ہے اور یہی تنوع شورش کا ایندھن بھی بن گیا ہے۔ ناگا پہاڑیاں ایک علیحدہ ’’ناگالِم‘‘ کا خواب دیکھتی ہیں آسام میں اولفا کی بندوقیں کبھی تیل کی رائلٹی پر گرجتی ہیں تو کبھی ’ آسام صرف آسام والوں کا ‘ کے نعرے پر۔ منی پور میں مِیتئی اور قبائلی برادریوں کی کشمکش کو پی ایل اے اور یو این ایل ایف کی متوازی حکومتیں تقویت دیتی ہیں جبکہ میزورام، تریپورہ اور میگھالیہ میں مقامی قوم پرستی نئے وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم پر سوال اٹھاتی ہے ان ریاستوں میں آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA) نے بغاوت کو دبانے کے بجائے فوج–عوام خلیج کو اور گہرا کر دیا ہے اب رخ کرتے ہیں دکن کے میدانی اور ساحلی علاقوں کا تامل ناڈو میں دراوِڑی تحریک بیسویں صدی میں علیحدگی کے مطالبے سے واپس تو ہوئی، مگر اس نے ’’میں پہلے تامل، پھر ہندوستانی‘‘ کا بیانیہ شہری ووٹ بینک کی صورت میں ہمیشہ کے لیے پختہ کر دیا پاک بھارت موجودہ جنگ نے اس تحریک میں بھی زور ڈال دیا ہے کیرالا کی ملّحت زدہ فضا میں، کرناٹک کے ساحلوں اور آندھرا کے رائل سیما خطے میں کبھی کوڈاگُو، کبھی تولو ناڈو اور کبھی الگ رائل سیما ریاست کی سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں۔ یہ سرگوشیاں شاید ابھی توپ کا گولہ نہ بنی ہوں، مگر تلنگانہ کی صورتِ حال بتاتی ہے کہ سرگوشی اگر دیر تک گونجے تو بالآخر آئین میں نئی ریاست کا نقشہ کھینچ دیتی ہے۔انڈین حکومت کے پاس اس تمام اندرونی اُبال کا مقابلہ کرنے کے دو بڑے ہتھیار ہیں ایک ہاتھ میں ترقیاتی پیکج اور مخصوص مالی فنڈز ، دوسرے ہاتھ میں سکیورٹی فورسز اور سخت گیر قوانین ہیں جہاں میزورام اور ناگا لینڈ جیسے علاقوں میں طویل مذاکرات نے شورش کم کی ، وہیں کشمیر یا ریڈ کوریڈور میں فوجی حل نے عارضی سکون کے بدلے محرومی کا احساس دوگنا کر دیا ہے اسی کشمکش نے لداخ اور اروناچل میں سرحدی سڑکوں، سرنگوں اور ایئر بیسز کی تعمیر کی رفتار بڑھائی لیکن ہر نئی سڑک کے ساتھ فوجی جوتوں کی چاپ بھی مقامی آبادی کے کانوں میں گونجتی ہے بیرونی محاذ پر حالات یوں ہیں کہ چین اروناچل پردیش کو ’جنوبی تبت‘ کہہ کر نقشوں اور ناموں کا کھیل کھیلتا ہے حالانکہ تبت کے لوگوں کے حلیے چہرے کے نقش تہزیب،تمدن اور زبان وہاں پر چائنیز زبان بولی جاتی ہے نہ صرف بولی بلکہ ان کے سینما گھروں تھیٹرز میں جو پکچرز بھی ریلیز کی جاتی ہیں وہ بھی چائنیز زبان میں کی جاتی ہے 10 مئی 2025 کی جنگ کے بعد چائینہ نے یہاں کے 20 مقامات کو چینی ناموں سے منسوب کر دیا ہے جبکہ پاک بھارت جنگ کے بعد سکھوں نے خالصتان کا جھنڈا لندن، ٹورنٹو اور میلبورن کی گلیوں میں دوبارہ لہرا کر بھارت کی سفارت کاری کو زچ کر رہا ہے اسی لئے انڈیا نے افغانیوں سے گٹھ جوڑ کر کے پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے اسکو معلوم ہی نہیں کہ وہ پاکستان کو توڑنے کے چکر میں اپنے ٹکرے کروا لے گا 'ان شاءاللہ'